Earn Money Online Free

 








الرٹ 😡

کچھ دن پہلے قاضی فائز نے جو قادیانیوں کے حق میں فیصلہ دیا تھا  اس کو انٹرا کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا ہے  قاضی فائز نے اقلیتوں کے قانون کی آڑ میں قادیانیوں کو نوازا ہے جو دین اسلام اور پاکستان کے آئین سے غداری ہے 

قاضی فائز پر بے شمار لعنت ہو

*چیپ جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی اصلیت*



*تحریر بڑی ہے مگر لازمی غور سے پڑھنا تاکہ آپ کو بھی پتہ چلے کہ اعلیٰ عدلیہ کے سب سے بڑے منصب پر بیٹھنے والا کس کا وفادار ہے۔۔۔*


*مقدمہ نمبر 22/661 تھانہ چناب نگر چینوٹ*


*قادیانی مذہب کی تشہیر*


قاضی فائز عیسی , چیف جسٹس سپریم کورٹ ، پاکستان


*مقدمہ کا پس منظر*


قادیانی گروہ کے کہ ذمہ داران ایک عرصہ سے قرآن مجید فرقان حمید کا تحریف شدہ ترجمہ اور تفسیر کے نسخے پرنٹ کر کے سادہ لوح مسلمانوں میں تقسیم کر رہے تھے جس کی وجہ سے سادہ لوح مسلمان دھوکہ کھا کر اپنا ایمان تک گنوانے کے خطرہ سے دوچار تھے ۔ اس ارتداد کے خاتمہ کے سدِ باب کے لیے ایک عرصہ سے عاشقان رسول اپنی قانونی جنگ لڑ رہے تھے ، یہاں تک کہ تمام ذیلی قانونی فورمز سے مایوس ہو کر 2018 میں لاہور ہائی کورٹ میں اس معاملہ کے سدِ باب کے لئے محمد حسن معاویہ کے ذریعے ایک رٹ پٹیشن دائر کی گئی ۔ رِٹ پٹیشن کا فیصلہ مارچ 2019 میں قادیانیوں کے خلاف آیا اور ہائی کورٹ نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کا حکم جاری کیا کہ وہ قادیانیوں کے ان غیر قانونی غیر آئینی اقدامات کے خلاف قانونی کاروائی کریں ۔ تاہم اس حکم نامہ پر کوئی عمل درآمد نہیں کیا گیا۔

6 مارچ 2019 کو قادیانیوں نے چناب نگر کالج کے گراؤنڈ میں ایک تقریب کا انعقاد کا ارادہ کیا ۔ اس تقریب میں سرکردہ قادیانیوں نے قرآن مجید فرقان حمید کے تحریف شدہ تراجم و تفاسیر کے نسخے تقسیم کرنے کا اعلان کیا ۔ اس تقریب کے انعقاد کے خلاف محمد حسن معاویہ کے ذریعے چناب نگر تھانے میں درخواست دی گئی ، مگر پولیس نے کوئی کاروائی نہ کی ۔ پولیس کی جانب سے کسی قسم کی کاروائی نہ ہونے پر 7  مارچ 2019 کو یہ تقریب منعقد ہوئی جس کے تمام شواہد کے ساتھ تھانہ میں 14 مارچ 2019 کو دوبارہ درخواست دی گئی ۔ درخواست دینے پر چینوٹ پولیس کے  SOP's کے مطابق DPO چینوٹ ، DIC کمیٹی اور بعد میں JIT اور دیگر کمیٹیوں کے روبرو انکوائری چلتی رہی ۔ انکوائری میں فریقین پیش ہوتے رہے اور تحریری موقف دیا جاتا رہا ۔ حتیٰ کہ ان کمیٹیوں کے فیصلے کے مطابق پولیس نے مزید قانونی رائے لینے کے لئے ایک درخواست قران بورڈ پنجاب کو بھیجوا دی گئی ۔ جس پر بعد ازاں پنجاب قران بورڈ نے FIR کے اندراج کے لئے ایک مراسلہ بھیجا ۔ مدعی فریق کی جانب سے 12 دسمبر 2022 کو بذریعہ تحریری بیان یہ بات ریکارڈ پر لائی گئی کہ قرآن پاک کے تحریف شدہ تراجم ابھی تک چناب نگر میں مدرسۃ الحفظ اور عائشہ اکیڈمی میں پڑھائے جا رہے ہیں۔


مدعی کی 2019 سے لے کر 2022 تک دی گئی تمام درخواستوں کو مقدمے کا حصہ بنایا جا چکا ہے ۔ جس پر  مقدمے میں قران ایکٹ 2011 کی ترمیم شدہ دفعات مقدمہ میں لگائی گئی ۔ یہ بات غلط ہے کہ یہ دفعہ 2019 کو ہونے والے وقوعہ کی وجہ سے لگائی گئی ۔  درحقیقت یہ جرم 2019 سے لیکر 2022 تک مسلسل رونما ہوتا رہا اور قادیانیوں نے کسی بھی سٹیج پر اس چیز کا انکار نہیں کیا کہ وہ قران پاک کے ان تحریف شدہ تراجم و تفاسیر کی پرنٹنگ ، یا اسکی تشہیر ، یا اسکی تبلیغ نہیں کرتے ۔

 المیہ یہ کہ چیف جسٹس نے خیانت کا مظاہرہ کیا اور مدعی فریق کے وکلا کی کوئی بحث ریکارڈ پر نہ لائے ۔ اگر ان تمام مباحث کے خلاصہ کو مقدمہ کے فیصلہ میں ریفر کیا جاتا تو عوام الناس کو اصل حقائق کا علم ہو سکتا تھا۔ 


مقدمہ 2022 میں درج ہوا اور بوقت گرفتاری بھی ملزم سے جو میٹیریل برآمد ہوا اس کے مطابق اس وقت تک قران مجید فرقان حمید کے تحریف شدہ تراجم و تفسیر کی نہ صرف تشہیر کی جا رہی تھی بلکہ تعلیم و تربیت اور تبلیغ بھی کی جا رہی تھی ۔


*کاروائی سماعت سپریم کورٹ بینچ 1 مورخہ 6 فروری 2024*

  

1.

سرکاری وکیل کی جانب سے ٹائم مانگا گیا کہ میری تیاری نہیں ہے اور میرے پاس ریکارڈ نہیں ہے ، پہلی پیشی ہے اور مجھے دو دن کا وقت چاہیے ۔ مقدمہ حساس نوعیت کا ہے جب تک میرے پاس مکمل ریکارڈ نہیں ہوگا میں بحث نہیں کر سکتا۔


قاضی فائز عیسی کی طرف سے سرکاری وکیل کو ٹائم دینے سے انکار ----------- 

مدعی کی طرف سے وکیل نے پیش ہو کر بتایا کہ میں آج ہی اس کیس میں نامزد ہوا ہوں اور سرکار دو دن کا ٹائم مانگ رہی ہے کیس کو ایک دو دن کے لیے ملتوی کر دیا جائے -------

 مدعی کون ہوتا مقدمہ کروانے والا یہ ریاست کے خلاف جرم ہے ---------

 چیف جسٹس کی ریمارکس۔


جب قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا گیا ہے تو ان کی طرف سے شائع کیا گیا قران پاک ، ترجمہ یا تفسیر ان کی کتاب ہے -------- قران پاک نہیں ، اس کو قران پاک کہنا بے ادبی ہے اور جو انہوں نے چھاپا ہے وہ ان کی کتاب ہے -------- آپ اس کو قران پاک نہ کہیں ۔ آپ ان کے پاس جائیں انہیں پیار سے سمجھائیں ، آپ وکیل کے طور پہ پیش ہوں مدعی کے جذبات جو ہیں اگر وہ وکیل کے اندر آجائیں تو پھر وہ وکیل نہیں رہتا -------

 چیف جسٹس کا مدعی کے وکیل سے مکالمہ ، شکایت کنندہ کے پاس کیا حق ہے کہ وہ ایسے معاملات میں مدعی بنے-------

 چیف جسٹس کی ریمارکس۔


وہ تو تمام قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو کیا کریں ------- جسٹس مسرت حلالی


مدعی کے وکیل کی طرف سے تمام حقائق عدالت کو علم میں لانے کی کوشش کی گئی جس پر چیف جسٹس مزید برہم ہو کر وکیل صاحب کو توہین عدالت اور جیل بھیجنے کی دھمکیاں دینے لگے کہ اگر آپ نے مزید کوئی جملہ بولا تو آپ کو کمیٹی کے حوالے کر دوں گا ۔


چیف جسٹس نے کہا کہ 295-B  کا اطلاق ہی نہیں ہوتا ، جبکہ ڈیفائل کا مطلب کسی چیز میں ملاوٹ کرنا ہوتا ہے ۔ جو 295-B کے اندر درج ہے ۔ قران پاک کے ترجمہ میں ملاوٹ کرنا 295-B  میں ہر حال میں آتا ہے ۔ اسی طرح 298-C  جو واضح کرتا ہے کہ قادیانی کسی صورت بھی شعائر اسلام اور اسلامی بنیاد استعمال نہیں کر سکتے ہیں مگر اس ساری چیز کے باوجود 298B , 298C , 295 اور قران ایکٹ دفعہ 7 حذف کر دی گئیں-


*فیصلہ اور اثرات*

چیف جسٹس نے آرٹیکل 20 کی بابت بتایا کہ قادیانیوں کو مذہبی آزادی ہے ۔ اسی آرڈر کو لے کر قادیانی ارباب حکومت کے ہر ذمہ دار کے پاس درخواستیں دائر کر رہے ہیں کہ انہیں مذہبی آزادی چیف جسٹس آف پاکستان نے دے دی ہے ۔ لہذا ان کے خلاف کوئی قانونی کاروائی پورے ملک میں مت کی جائے۔...

 مگر فیصلے کے اندر چیف جسٹس یہ بتانے سے قاصر ہے کہ قادیانی کون سا مذہب ہے؟

 اسکا نبی کون ہے؟

 اسکی کتاب کیا ہے؟

 شریعت کیا ہے؟

 یہ کہاں پایا جاتا ہے؟

 اس مذہب کا مقصد کیا ہے؟

 ان تمام سوالوں کا جواب اس فیصلے میں موجود نہیں کیونکہ قادیانیت مذہب نہیں جعلسازی اور ارتداد کا دوسرا نام ہے ۔ جعلسازی کو پاکستان کا قانون قابل گرفت سزا قرار دیتا ہے۔ 


آئین پاکستان کا آرٹیکل 20 تمام شہریوں کو اپنے مذہب کی تبلیغ اور اشاعت کا حق دیتا ہے مگر قانون کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے ۔ چیف جسٹس نے بددیانتی کرتے ہوئے فیصلے میں حقائق کو چھپا کر قادیانیوں کو فائدہ دینے کی کوشش کی ہے اور جب بھی کسی عدالت میں ان جرائم کے متعلق کیس کیا جائے گا تو قادیانی جماعت کی طرف سے اس فیصلے کا حوالہ دے کر عدالت کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ 


جب وکیل مدعی نے عدالت کو بتایا کہ جیسے طالبان آئین کے کچھ سیکشن نکال کر یا اس کی اپنی تشریحات کے ساتھ آئین کی پرنٹنگ کر کے اسے اپنے علاقہ یا اپنی کمیونٹی میں 1973 کا آئین ظاہر کر کے چلانا چاہیں تو قانون اس کی اجازت نہیں دیتا، اسی طرح قانون قران پاک کی تحریف شدہ ترجمہ و تشریح کے مصحف کی تشہیر کی اجازت نہیں دیتا ۔ اس پر عدالت نے وکیل مدعی کو توہین عدالت دینے کا عندیہ دیا۔۔۔


 *اہم ترین بات یہ ہیکہ قادیانیوں کے متعلق جب بھی کوئی اھم ایشو سپریم کورٹ آف پاکستان میں جاتا ہے تو بوقت بحث UNO کے نمائندے, یورپی یونین کے نمائندے اور دیگر مبصرین اپنے کتوں کو بچانے کیلیے سپریم کورٹ کے کمرہ عدالت میں بیٹھے پائے ہیں۔ اپنے مالکوں کو دیکھ کر صیہونی ججز کے رویے بدل جاتے ہیں۔۔۔*

https://www.dawn.com/news/1812607



Comments

Popular posts from this blog

best ai tools 2024

*محسن پاکستان پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان*

Host Papa Hosting Service Review